اسلامی یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس اختتام پزیر

 بار کونسلز، جامعات اور ہائر ایجوکیشن کمیشن باہمی مشاورت کے ذریعے قانون کی تعلیم کے قواعد وضع کریں، کانفرنس کی سفارشات

بحث ، تدبر اور دلائل ترقی کے لیے ناگزیر ہیں، تنقیدی سوچ قانون کی تعلیم کے درست اطلاق میں مدد دیتی ہے ،جسٹس اطہر من اللہ

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے زیر اہتمام” قانون کی تعلیم “کے موضوع پر دو روزہ کانفرنس کے شرکاءنے اس بات پر زور دیا ہے کہ ملک میں قانون کی تعلیم اور نصاب کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے ، اس ضمن میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے ، قانونی تعلیم میں تبدیلیوں کے حوالے سے قانونی تعلیم سے متعلقہ اداروں کو مشاورت کا حصہ بنایا جائے جبکہ بار کونسلز، جامعات اور ہائر ایجوکیشن کمیشن باہمی مشاورت کے ذریعے قانون کی تعلیم کے قواعد وضع کریں ۔

   کانفرنس کا اختتام جامعہ کے فیصل مسجد کیمپس میں ہوا جس میں پاکستان سمیت ملائیشیا، آسٹریلیا اور چین کے مقالہ نگار و قانونی ماہرین نے شرکت کرتے ہوئے 40 کے قریب مقالات میں قانون کی تعلیم سے وابستہ چیلنجز ، مستقبل کے امکانات اور اعلیٰ قانونی تعلیم کی صورت حال پر اظہار خیال کیا۔ شرکاءکانفرنس نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بدلتے ہوئے حالات اور جدید عصری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے مضامین قانون کی تعلیم میں شامل کیے جائیں۔

کانفرنس کی اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ علم کے اضافے کے لیے بحث ، تدبر اور دلائل وہ خصوصیات ہیں جو افراد اور اداروں کو ترقی کی منازل کی طرف گامزن کرتی ہیں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی یونیورسٹی کے اساتذہ نے انہیں اور ملک کے دیگر نامور قانون دانوں کو اسلاف کی قانونی تعلیم میں خدمات ، ان کے اسلوب اور مجتہدین کی تعلیمات استفادہ کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ انہوں نے کہا کہ تنقیدی ، سوچ ہی قانون کی تعلیم کے درست اطلاق میں مدد دیتی ہے۔ اور یہی وصف اسلامی یونیورسٹی کے اساتذہ، ادارے کے آغاز سے لے کر اب تک طلبہ تک پہنچا رہے ہیں۔ اپنی تقریر میں انہوں نے اصول فقہ کو بھی موضوع بحث بنایا جبکہ زندگی کی اہمیت اور اس کے تحفظ پر بھی تفصیلی گفتگو کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ریکٹر جامعہ ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی نے کہا کہ قانونی تعلیم معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ، تاہم اعلیٰ تعلیمی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قانونی ماہرین و محققین کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر شعبہ میں درپیش چیلنجز اور امکانات کے حوالے سے سفارشات مرتب کروائیں جو کہ اس ضمن میں پالیسی سازی میں مدد گار ثابت ہوں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شعبہ قانون میں لاءکلینکس کا قیام خوش آئند امر ہے جس سے قانونی تعلیم کے معیار میں بہتری کے مواقع میسر آئیں گے ۔

اس موقع پر جامعہ کے کلیہ شریعہ و قانون کے ڈین ڈاکٹر طاہر حکیم نے اسلامی تاریخ کی روشنی میں قانون کی اہمیت پر سیر حاصل گفتگو کی اور کانفرنس کے انعقاد میں جامعہ کی انتظامیہ ، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق مکالمہ کے تعاون پر شکریہ ادا کیا۔

قبل ازیں شعبہ قانون کے سربراہ ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن نے کانفرنس کی سفارشات پیش کیں جبکہ انہوں نے شرکاءکو کانفرنس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس سرگرمی کا مقصد قانونی تعلیم کے ڈھانچے پر تبادلہ خیال اور نصاب پر ماہرین کے تجربات کا تبادلہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس کے مقالات میں اعلیٰ معیاری قانونی تعلیم کی فراہمی اور شعبہ میں جامعات و ماہرین کے مابین باہمی تعاون کے مواقعوں کی تلا ش ہے ۔