سعودی عرب، پاکستان اتحاد امت میں کردار کے لیے کلیدی ممالک ہیں: شرکاء
اسلام احترام رائے اور امن و سلامتی کا درس دیتا ہے، پیر نورالحق قادری
بین الاقوامی ااسلامی یونیورسٹی کے ادارہ تحقیقات اسلامی کے زیر اہتمام “اتحاد امت و فروغ امن میں پاکستان اور سعودی عرب کا کردار “کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کے شرکاءنے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب 1.8 بلین مسلمانوں کے مابین اتحاد کے قیام کے لیے سرگرم کلیدی ممالک ہیں جبکہ پوری امت کو مجموعی مشاورت اور باہمی اتحاد کے ساتھ عصری مسائل کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔
جامعہ کے فیصل مسجد کیمپس میں سیمینار کا انعقاد گزشتہ ہفتے اتحاد امت پر رابطہ عالم اسلامی کی کانفرنس کے اعلامیے کی روشنی میں کیا گیا تھا جس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور ڈاکٹر پیر نور الحق قادری نے کہا کہ عناد اور فرقہ ورایت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ تو انسانوں میں دوریاں پیدا کرنے والے رویے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام اجتماعی سطح پر مشاورت کا درس دیتا ہے اور پر امن بقائے عمل باہمی پر زور دیتاہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت معاشرے میں برداشت کے فروغ کے لیے سرگرم ہے اور وزیر اعظم پاکستان نے اپنے ایک خصوصی نمائندے کو ادیان کے احترام کے حوالے سے قانون سازی پر کام کرنے کا ٹاسک دیاہے ۔ انہوں نے جامعہ کے” پیغام پاکستان“ کے لیے کاوشوںکو بھی سراہا اور کہا کہ اس بیانیے کو پوری دنیا میں پزیرائی مل رہی ہے ۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب اتحاد امت کے مشترکہ مقصد کے لیے سر گرم ہیں اور یہ مماثلت دونوں ممالک کو اور بھی قریب کرتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ کامیاب دورے کے بعد مستقبل میں دونوں ممالک کے مابین تعلق میں مزید وسعت آئے گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی یونیورسٹی پاک سعودی محبت و تعاون کی بہترین مثال ہے ۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش نے کہا کہ سیمینار اور رابطہ عالم اسلامی کی کانفرنس برائے اتحاد امت کا انعقاد بروقت اور برمحل ہے کیونکہ آج مسلم ممالک کی صفوں میں اتحا دکی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک سعودی تعلقات مثالی اور تاریخی ہیں۔ سیمینار سے ادارہ تحقیقات اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر محمد ضیاءالحق نے بھی خطاب کیا اور اغراض و مقاصدپر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر نائب سعودی سفیر دیگر ممالک کے سفارتکار ، جامعہ کے نائب صدور اور دیگر اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے۔