اسلامی یونیورسٹی: شریعہ اکیڈمی کے زیر اہتمام ” پاکستان میں قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا عمل “کے موضوع پر کانفرنس  کا آغاز

انصاف کی فوری  اور بروقت فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، بنیادی خامیوں کو دور کیے بغیر قوانین کا نافذ کیا جانا بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے:چیف جسٹس(ر) جواد ایس خواجہ

کانفرنس میں 50 سے زائد مقالات پیش کیے جائیں گے

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی شریعہ اکیڈمی کے زیر اہتمام ” پاکستان میں قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا عمل “کے موضوع پر تین روز ہ قومی کانفرنس  کا آغاز  منگل کو  فیصل مسجد کیمپس میں  ہوا، جہاں نامورججز ،  وکلا، صحافی، محققین، سکالرز اور قانون کے اساتذہ نے قوانین کو اسلامیانے کی خاطر اختیار کردہ مناہج و اسالیب کا جائزہ لیا ہے جبکہ قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے میں مشکلات کے اسباب اور مستقبل کے امکانات کا بھی جائزہ لیاگیا۔

کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ تھے جنہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ انصاف کی فوری  اور بروقت فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے اور یہ کسی بھی شخص کا بنیادی حق ہے کہ اسے سستا اور بروقت انصاف مہیا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی تاریخ میں کچھ قوانین پر سیاست کی گئی جو کہ افسوسناک ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بنیادی خامیوں کو دور کیے بغیر قوانین کا نافذ کیا جانا بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے ۔چیف جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کسی کھنڈر کو آباد کرنے کے لیے ضروروی ہے کہ پہلے اس کی بنیادوں کو اکھیڑا جائے اور ایسا ہی معاملہ ہمیں قوانین کو اسلامیانے سے پہلے کرنا ہو گا  کیونکہ جب تک رائج قوانین میں بہتری نہیں آتی تب تک  قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا ایسا ہو گا جیسے کسی پرانی عمارت کے اوپر نئی عمارت قائم کر دی جائے۔  انہوں نے کہا کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک کی توجہ برطانوی قوانین کی بجائے سول لاء پر ہے ۔ سابق چیف  جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں  سول مقدمے کے فیصلے کی اوسطاً مدت پچیس سال ہے جو کہ قابل افسوس ہے ۔ اردو زبان کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس نے کہا کہ اردو کی ترویج اولین ترجیح ہونی چاہیےاور اسے اداروں میں رائج کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ مغلوب رہتے ہوئے اغیار کی زبان پر ہی انحصار کیا جائے۔چیف  جسٹس ریٹارئرڈ جواد ایس خواجہ نے  شریعہ اکیڈمی کی خدمات کی بھی تعریف کی ۔

 کانفرنس سے ریکٹر بین الاقوامی ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی نے خطاب کرتے ہوئے تعلیمی اداروں پر زور دیا کہ وہ معاشرے کی ضروریات سے مطابقت اپنائیں اور امید ظاہر کی کہ حالیہ کانفرنس قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے اہم سفارشات مرتب کرے گی ۔ ان کا مزید کہناتھا کہ جامعات کو قانون ، طب اور سائنس و ٹیکنالوجی پر خصوصی توجہ دینا ہو گی  اور عصر حاضر کی تبدیلیوں اور نئے رجحانات کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی یونیورسٹی  نو تشکیل کردہ الفارابی کمپلیکس میں قائم اپنے مراکز کے ذریعے بین المضامین اور جدید ترین تحقیق کے پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے  اور یہی مستبقل میں کامیابی کی کنجی ہے ۔ ریکٹر جامعہ نے مزید کہا کہ جامعات کا بامعنی کردار قوموں کی تقدیر اور حالات بدل سکتا ہے ، انہوں نے اسلامی یونیورسٹی کے مرتب کردہ پیغام پاکستان بیانیہ کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ جامعات وہ دانش گاہیں ہیں جو معاشروں کو ان کے مسائل کے حل فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اس سے قبل کانفرنس سے شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد مشتاق نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد اور اکیڈمی کا تعارف پیش کیا۔ اس کانفرنس میں  50سے زائد مقالات پیش کیے جائیں گے۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں جامعہ کے نائب صدر و ماہر قانون ڈاکٹر محمد منیر ، معروف قانون دان ڈاکٹر انوار الحق  اور جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی سمیت دیگر اساتذہ و ماہرین بھی شریک ہوئے۔ یہ تین روزہ  کانفرنس جمعرات کے روز سہ پہر میں ختم ہو گی جبکہ  اس کی مختلف نشستوں میں جسٹس فائز عیسیٰ سمیت دیگر محققین و قانون سکالرز خطاب کریں گے ۔